EN हिंदी
وہ آسماں کے درخشندہ راہیوں جیسا | شیح شیری
wo aasman ke daraKHshinda rahiyon jaisa

غزل

وہ آسماں کے درخشندہ راہیوں جیسا

آفتاب اقبال شمیم

;

وہ آسماں کے درخشندہ راہیوں جیسا
اندھیری شب میں سحر کی گواہیوں جیسا

کرن شعور، دل جہل میں اتارتا جا
کہ وقت آن پڑا ہے تباہیوں جیسا

فقر فردا! ترے نام سے ملا ہے ہمیں
یہ ملک خواب، تری بادشاہیوں جیسا

نیاز و عرض سخن سے کہاں فرو ہووے
غرور و ناز کہ ہے کج کلاہیوں جیسا

کہا تھا کس نے کہ شاخ نحیف سے پھوٹیں
گناہ ہم سے ہوا بے گناہیوں جیسا

مری برات کسی اجنبی کا لکھا ہوا
یہ حرف حرف نوشتہ سیاہیوں جیسا