عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے
دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے
ایک انائے بے چہرہ کے بدلے میں
چلیے کچھ مشہوری تو ہو جاتی ہے
دل اور دنیا دونوں کو خوش رکھنے میں
اپنے آپ سے دوری تو ہو جاتی ہے
لفظوں میں خالی جگہیں بھر لینے سے
بات ادھوری، پوری تو ہو جاتی ہے
جذبہ ہے جو روز کے زندہ رہنے کا
ہم سے وہ مزدوری تو ہو جاتی ہے
غزل
عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے
آفتاب اقبال شمیم