EN हिंदी
عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے | شیح شیری
ishq mein ye majburi to ho jati hai

غزل

عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے

آفتاب اقبال شمیم

;

عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے
دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے

ایک انائے بے چہرہ کے بدلے میں
چلیے کچھ مشہوری تو ہو جاتی ہے

دل اور دنیا دونوں کو خوش رکھنے میں
اپنے آپ سے دوری تو ہو جاتی ہے

لفظوں میں خالی جگہیں بھر لینے سے
بات ادھوری، پوری تو ہو جاتی ہے

جذبہ ہے جو روز کے زندہ رہنے کا
ہم سے وہ مزدوری تو ہو جاتی ہے