ہر کسی کا ہر کسی سے رابطہ ٹوٹا ہوا
آنکھ سے منظر خبر سے واقعہ ٹوٹا ہوا
کیوں یہ ہم صورت رواں ہیں مختلف اطراف میں
ہے کہیں سے قافلے کا سلسلہ ٹوٹا ہوا
وائے مجبوری کہ اپنا مسخ چہرہ دیکھیے
سامنے رکھا گیا ہے آئنا ٹوٹا ہوا
خودبخود بدلے تو بدلے یہ زمیں اس کے سوا
کیا بشارت دے ہمارا حوصلہ ٹوٹا ہوا
خواب کے آگے شکست خواب کا تھا سامنا
یہ سفر تھا مرحلہ در مرحلہ ٹوٹا ہوا
کچھ تغافل بھی خبرداری میں شامل کیجیے
ورنہ کر ڈالے گا پاگل واہمہ ٹوٹا ہوا
غزل
ہر کسی کا ہر کسی سے رابطہ ٹوٹا ہوا
آفتاب اقبال شمیم