EN हिंदी
نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں | شیح شیری
naslen jo andhere ke mahazon pe laDi hain

غزل

نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں

آفتاب اقبال شمیم

;

نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں
اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں

بے نام سی آواز شگفت آئی کہیں سے
کچھ پتیاں شاید شجر شب سے جھڑی ہیں

نکلیں تو شکستوں کے اندھیرے ابل آئیں
رہنے دو جو کرنیں مری آنکھوں میں گڑی ہیں

آ ڈوب! ابھرنا ہے تجھے اگلے نگر میں
منزل بھی بلاتی ہے صلیبیں بھی کھڑی ہیں

جب پاس کبھی جائیں تو پٹ بھیڑ لیں کھٹ سے
کیا لڑکیاں سپنے کے دریچوں میں کھڑی ہیں

کیا رات کے آشوب میں وہ خود سے لڑا تھا
آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں

خاموشیاں اس ساحل آواز سے آگے
پاتال سے گہری ہیں، سمندر سے بڑی ہیں