EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اپنے اپنے حوصلوں اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے انہیں سارا جہاں رہنے دیا

ادیب سہارنپوری




باندھ کر عہد وفا کوئی گیا ہے مجھ سے
اے مری عمر رواں اور ذرا آہستہ

ادیب سہارنپوری




ہزار بار ارادہ کئے بغیر بھی ہم
چلے ہیں اٹھ کے تو اکثر گئے اسی کی طرف

ادیب سہارنپوری




منزلیں نہ بھولیں گے راہرو بھٹکنے سے
شوق کو تعلق ہی کب ہے پاؤں تھکنے سے

ادیب سہارنپوری




راحت کی جستجو میں خوشی کی تلاش میں
غم پالتی ہے عمر گریزاں نئے نئے

ادیب سہارنپوری




یہی مہر و ماہ و انجم کو گلہ ہے مجھ سے یارب
کہ انہیں بھی چین ملتا جو مجھے قرار ہوتا

ادیب سہارنپوری




بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے

عدیم ہاشمی