اک خلش کو حاصل عمر رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انہیں نا مہرباں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا
آرزوئے عشق بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ میرے اور ان کے درمیاں رہنے دیا
اپنے اپنے حوصلوں اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے انہیں سارا جہاں رہنے دیا
یہ بھی کیا جینے میں جینا ہے بغیر ان کے ادیبؔ
شمع گل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا
غزل
اک خلش کو حاصل عمر رواں رہنے دیا
ادیب سہارنپوری