مرے شوق جستجو کا کسے اعتبار ہوتا
سر راہ منزلوں تک نہ اگر غبار ہوتا
میں تجھے خدا سمجھ کر نہ گناہ گار ہوتا
اگر ایک بے نیازی ہی ترا اشعار ہوتا
جو ستم زدوں کا یارب کوئی غم گسار ہوتا
تو غم حیات اتنا نہ دلوں پہ بار ہوتا
مری زندگی میں شامل جو نہ تیرا پیار ہوتا
تو نشاط دو جہاں بھی مجھے ناگوار ہوتا
یہی مہر و ماہ و انجم کو گلہ ہے مجھ سے یارب
کہ انہیں بھی چین ملتا جو مجھے قرار ہوتا
نہ سکون دل کی چاہت میں تڑپ ادیبؔ اتنا
کسی اور کو تو ملتا جو کہیں قرار ہوتا
غزل
مرے شوق جستجو کا کسے اعتبار ہوتا
ادیب سہارنپوری