EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جو دل میں تھی نگاہ سی نگاہ میں کرن سی تھی
وہ داستاں الجھ گئی وضاحتوں کے درمیاں

ادا جعفری




کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا
گھلتا ہوا لہو میں یہ خورشید سا ہے کیا

ادا جعفری




کٹتا کہاں طویل تھا راتوں کا سلسلہ
سورج مری نگاہ کی سچائیوں میں تھا

ادا جعفری




خامشی سے ہوئی فغاں سے ہوئی
ابتدا رنج کی کہاں سے ہوئی

ادا جعفری




خلش تیر بے پناہ گئی
لیجئے ان سے رسم و راہ گئی

ادا جعفری




خزینے جاں کے لٹانے والے دلوں میں بسنے کی آس لے کر
سنا ہے کچھ لوگ ایسے گزرے جو گھر سے آئے نہ گھر گئے ہیں

ادا جعفری




کن منزلوں لٹے ہیں محبت کے قافلے
انساں زمیں پہ آج غریب الوطن سا ہے

ادا جعفری