منزلیں نہ بھولیں گے راہرو بھٹکنے سے
شوق کو تعلق ہی کب ہے پاؤں تھکنے سے
زندگی کے رشتے بھی دور دور تک نکلے
روح جاگ اٹھتی ہے پھول کے مہکنے سے
کتنے تیر کھائے ہیں کتنے غم اٹھائے ہیں
باز ہی نہیں آتا دل مگر دھڑکنے سے
ایک ساغر لبریز اور صورت سقراط
جاوداں نہیں ہوتے صرف زہر چکھنے سے
کار آشیاں بندی اور ہو گیا محبوب
جوہر طلب چمکا بجلیاں کڑکنے سے
گرم ہو کے پچھتائے باد تند کے جھونکے
روشنی چراغوں کی بڑھ گئی بھڑکنے سے
اے ادیب پر گوئی فرض تو نہیں کوئی
کیا بری ہے خاموشی اول فول بکنے سے
غزل
منزلیں نہ بھولیں گے راہرو بھٹکنے سے
ادیب سہارنپوری