EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نہ بہلاوا نہ سمجھوتا جدائی سی جدائی ہے
اداؔ سوچو تو خوشبو کا سفر آساں نہیں ہوتا

ادا جعفری




ریت بھی اپنی رت بھی اپنی
دل رسم دنیا کیا جانے

ادا جعفری




سب سے بڑا فریب ہے خود زندگی اداؔ
اس حیلہ جو کے ساتھ ہیں ہم بھی بہانہ ساز

ادا جعفری




تو نے مژگاں اٹھا کے دیکھا بھی
شہر خالی نہ تھا مکینوں سے

ادا جعفری




ورنہ انسان مر گیا ہوتا
کوئی بے نام جستجو ہے ابھی

ادا جعفری




وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بہ کو لیے پھری
وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں

ادا جعفری




وہ تشنگی تھی کہ شبنم کو ہونٹ ترسے ہیں
وہ آب ہوں کہ مقید گہر گہر میں رہوں

ادا جعفری