نغمۂ عشق بتاں اور ذرا آہستہ
ذکر نازک بدناں اور ذرا آہستہ
میرے محبوب کی یادوں کے بھڑکتے ہیں چراغ
اے نسیم گزراں اور ذرا آہستہ
جس طرف سے وہ گزرتے ہیں صدا آتی ہے
اے قرار دل و جاں اور ذرا آہستہ
دل ہر اک گام پہ لوگوں نے بچھا رکھے ہیں
اور اے سرو رواں اور ذرا آہستہ
کوچۂ دوست میں آہستہ روی کے با وصف
دل یہ کہتا ہے یاں اور ذرا آہستہ
ان پہ موج نفس گل بھی گراں گزرے ہے
پرسش غم زدگاں اور ذرا آہستہ
باندھ کر عہد وفا کوئی گیا ہے مجھ سے
اے مری عمر رواں اور ذرا آہستہ
کم عبادت سے نہیں ذکر بتوں کا بھی عزیزؔ
بارے توصیف بتاں اور ذرا آہستہ
غزل
نغمۂ عشق بتاں اور ذرا آہستہ
ادیب سہارنپوری