نہیں کسی کی توجہ خود آگہی کی طرف
کوئی کسی کی طرف ہے کوئی کسی کی طرف
تمہارا جلوۂ معصوم دیکھ لے اک بار
خیال جس کا نہ جاتا ہو بندگی کی طرف
مزاج شیخ و برہمن کی برہمی معلوم
کہ اب حیات کا رخ ہے خود آگہی کی طرف
نظر وہ لوگ اجالے میں خود نہ آئے کبھی
بلا رہے ہیں جو دنیا کو روشنی کی طرف
جتا رہے ہیں ہمیں کو نہ دیکھنا اپنا
وہ دیکھ دیکھ کے محفل میں ہر کسی کی طرف
ہزار بار ارادہ کئے بغیر بھی ہم
چلے ہیں اٹھ کے تو اکثر گئے اسی کی طرف
بتوں نے منہ نہ لگایا ادیبؔ کو شاید
جھکے ہوئے ہیں جبھی تو یہ شیخ جی کی طرف
غزل
نہیں کسی کی توجہ خود آگہی کی طرف
ادیب سہارنپوری