EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اپنے دل میں آپ ہی رہتا ہے وہ
دوسرا کیا اس میں رہ سکتا نہیں

ابصار عبد العلی




وقت رخصت بھیگتی پلکوں کا منظر یاد ہے
پھول سی آنکھوں میں شبنم کی نمی اچھی لگی

ابصار عبد العلی




بلائے جاں تھی جو بزم تماشا چھوڑ دی میں نے
خوشا اے زندگی خوابوں کی دنیا چھوڑ دی میں نے

ابو محمد سحر




برق سے کھیلنے طوفان پہ ہنسنے والے
ایسے ڈوبے ترے غم میں کہ ابھر بھی نہ سکے

ابو محمد سحر




بے ربطئ حیات کا منظر بھی دیکھ لے
تھوڑا سا اپنی ذات کے باہر بھی دیکھ لے

ابو محمد سحر




غم حبیب نہیں کچھ غم جہاں سے الگ
یہ اہل درد نے کیا مسئلے اٹھائے ہیں

ابو محمد سحر




ہمیں تنہائیوں میں یوں تو کیا کیا یاد آتا ہے
مگر سچ پوچھیے تو ایک چہرا یاد آتا ہے

ابو محمد سحر