اپنے دل میں آپ ہی رہتا ہے وہ
دوسرا کیا اس میں رہ سکتا نہیں
ابصار عبد العلی
وقت رخصت بھیگتی پلکوں کا منظر یاد ہے
پھول سی آنکھوں میں شبنم کی نمی اچھی لگی
ابصار عبد العلی
بلائے جاں تھی جو بزم تماشا چھوڑ دی میں نے
خوشا اے زندگی خوابوں کی دنیا چھوڑ دی میں نے
ابو محمد سحر
برق سے کھیلنے طوفان پہ ہنسنے والے
ایسے ڈوبے ترے غم میں کہ ابھر بھی نہ سکے
ابو محمد سحر
بے ربطئ حیات کا منظر بھی دیکھ لے
تھوڑا سا اپنی ذات کے باہر بھی دیکھ لے
ابو محمد سحر
غم حبیب نہیں کچھ غم جہاں سے الگ
یہ اہل درد نے کیا مسئلے اٹھائے ہیں
ابو محمد سحر
ہمیں تنہائیوں میں یوں تو کیا کیا یاد آتا ہے
مگر سچ پوچھیے تو ایک چہرا یاد آتا ہے
ابو محمد سحر