وہ آ رہا تھا مگر میں نکل گیا کہیں اور
سو زخم ہجر سے بڑھ کر عذاب میں نے دیا
ابو الحسنات حقی
وہ کشتی سے دیتے تھے منظر کی داد
سو ہم نے بھی گھر کو سفینہ کیا
ابو الحسنات حقی
یہ بات الگ ہے کسی دھارے پہ نہیں ہے
دنیا کسی کمزور اشارے پہ نہیں ہے
ابو الحسنات حقی
یہ سچ ہے اس سے بچھڑ کر مجھے زمانہ ہوا
مگر وہ لوٹنا چاہے تو پھر زمانہ بھی کیا
ابو الحسنات حقی
بے خود بھی ہیں ہشیار بھی ہیں دیکھنے والے
ان مست نگاہوں کی ادا اور ہی کچھ ہے
ابو الکلام آزاد
کوئی نالاں کوئی گریاں کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہو گیا
ابو الکلام آزاد
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
ابو المجاہد زاہد