سحرؔ اب ہوگا میرا ذکر بھی روشن دماغوں میں
محبت نام کی اک رسم بے جا چھوڑ دی میں نے
ابو محمد سحر
تکمیل آرزو سے بھی ہوتا ہے غم کبھی
ایسی دعا نہ مانگ جسے بد دعا کہیں
ابو محمد سحر
محنت سے مل گیا جو سفینے کے بیچ تھا
دریائے عطر میرے پسینے کے بیچ تھا
ابو تراب
بے نیاز دہر کر دیتا ہے عشق
بے زروں کو لعل و زر دیتا ہے عشق
ابو الحسنات حقی
جانے کیا صورت حالات رقم تھی اس میں
جو ورق چاک ہوا اس کو دوبارا دیکھیں
ابو الحسنات حقی
میں قتل ہو کے بھی شرمندہ اپنے آپ سے ہوں
کہ اس کے بعد تو سارا زوال ہے اس کا
ابو الحسنات حقی
میری وحشت بھی سکوں نا آشنا میری طرح
میرے قدموں سے بندھی ہے ذمہ داری اور کیا
ابو الحسنات حقی