عشق کی سعی بد انجام سے ڈر بھی نہ سکے
ہم تری چشم عنایت سے اتر بھی نہ سکے
تو نہ ملتا مگر اللہ رے محرومی شوق
جینے والے تری امید میں مر بھی نہ سکے
برق سے کھیلنے طوفان پہ ہنسنے والے
ایسے ڈوبے ترے غم میں کہ ابھر بھی نہ سکے
حسن خود حسن مجسم سے پشیماں اٹھا
آئینہ لے کے وہ بیٹھے تو سنور بھی نہ سکے
تشنہ لب بیٹھے ہیں مے خانۂ ہستی میں سحرؔ
دل وہ ٹوٹا ہوا پیمانہ کہ بھر بھی نہ سکے
غزل
عشق کی سعی بد انجام سے ڈر بھی نہ سکے
ابو محمد سحر