قول آبروؔ کا تھا کہ نہ جاؤں گا اس گلی
ہو کر کے بے قرار دیکھو آج پھر گیا
آبرو شاہ مبارک
روونے نیں مجھ دوانے کے کیا سیانوں کا کام
سیل سیں انجہواں کے سارا شہر ویراں ہو گیا
آبرو شاہ مبارک
ساتھ میرے تیرے جو دکھ تھا سو پیارے عیش تھا
جب سیں تو بچھڑا ہے تب سیں عیش سب غم ہو گیا
آبرو شاہ مبارک
سر کوں اپنے قدم بنا کر کے
عجز کی راہ میں نبہتا ہوں
آبرو شاہ مبارک
شعر کو مضمون سیتی قدر ہو ہے آبروؔ
قافیہ سیتی ملایا قافیا تو کیا ہوا
آبرو شاہ مبارک
طواف کعبۂ دل کر نیاز و خاکساری سیں
وضو درکار نئیں کچھ اس عبادت میں تیمم کر
آبرو شاہ مبارک
ترا ہر عضو پیارے خوش نما ہے عضو دیگر سیں
مژہ سیں خوب تر ابرو و ابرو سیں بھلی انکھیاں
آبرو شاہ مبارک