EN हिंदी
جو نہیں لگتی تھی کل تک اب وہی اچھی لگی | شیح شیری
jo nahin lagti thi kal tak ab wahi achchhi lagi

غزل

جو نہیں لگتی تھی کل تک اب وہی اچھی لگی

ابصار عبد العلی

;

جو نہیں لگتی تھی کل تک اب وہی اچھی لگی
دیکھ کر اس کو جو دیکھا زندگی اچھی لگی

تھک کے سورج شام کی بانہوں میں جا کر سو گیا
رات بھر یادوں کی بستی جاگتی اچھی لگی

منتظر تھا وہ نہ ہم ہوں تو ہمارا نام لے
اس کی محفل میں ہمیں اپنی کمی اچھی لگی

وقت رخصت بھیگتی پلکوں کا منظر یاد ہے
پھول سی آنکھوں میں شبنم کی نمی اچھی لگی

دائرے میں اپنے ہم دونوں سفر کرتے رہے
برف سی دونوں جزیروں پر جمی اچھی لگی

اک قدم کے فاصلے پر دونوں آ کر رک گئے
بس یہی منزل سفر کی آخری اچھی لگی