جو نہیں لگتی تھی کل تک اب وہی اچھی لگی
دیکھ کر اس کو جو دیکھا زندگی اچھی لگی
تھک کے سورج شام کی بانہوں میں جا کر سو گیا
رات بھر یادوں کی بستی جاگتی اچھی لگی
منتظر تھا وہ نہ ہم ہوں تو ہمارا نام لے
اس کی محفل میں ہمیں اپنی کمی اچھی لگی
وقت رخصت بھیگتی پلکوں کا منظر یاد ہے
پھول سی آنکھوں میں شبنم کی نمی اچھی لگی
دائرے میں اپنے ہم دونوں سفر کرتے رہے
برف سی دونوں جزیروں پر جمی اچھی لگی
اک قدم کے فاصلے پر دونوں آ کر رک گئے
بس یہی منزل سفر کی آخری اچھی لگی
غزل
جو نہیں لگتی تھی کل تک اب وہی اچھی لگی
ابصار عبد العلی