ترا قد سرو سیں خوبی میں چڑھ ہے
لٹک سنبل سیتی زلفاں سیں بڑھ ہے
آبرو شاہ مبارک
ترے رخسارۂ سیمیں پہ مارا زلف نے کنڈل
لیا ہے اژدہا نیں چھین یارو مال عاشق کا
آبرو شاہ مبارک
تجھ حسن کے باغ میں سریجن
خورشید گل دوپہریا ہے
آبرو شاہ مبارک
تم نظر کیوں چرائے جاتے ہو
جب تمہیں ہم سلام کرتے ہیں
آبرو شاہ مبارک
تم یوں سیاہ چشم اے سجن مکھڑے کے جھمکوں سے ہوئے
خورشید نیں گرمی گری تب تو ہرن کالا ہوا
آبرو شاہ مبارک
تمہارے دیکھنے کے واسطے مرتے ہیں ہم کھل سیں
خدا کے واسطے ہم سیں ملو آ کر کسی چھل سیں
آبرو شاہ مبارک
تمہارے دل میں کیا نامہربانی آ گئی ظالم
کہ یوں پھینکا جدا مجھ سے پھڑکتی مچھلی کو جل سیں
آبرو شاہ مبارک