EN हिंदी
تیر اندازوں کو اندازہ نہیں | شیح شیری
tir-andazon ko andaza nahin

غزل

تیر اندازوں کو اندازہ نہیں

ابصار عبد العلی

;

تیر اندازوں کو اندازہ نہیں
زد میں آنا تھا جسے آیا نہیں

کچھ تصور کچھ توقع کچھ گماں
یہ بھی کیا خوابوں کا خمیازہ نہیں

ساری بستی میں فقط اک تیری ذات
قبلہ و کعبہ سہی کعبہ نہیں

جس ہوا میں تو ہے آقائے چمن
کوئی بھی جھونکا وہاں تازہ نہیں

دھول کی آنکھوں میں جا ہوتی نہیں
پاؤں میں لگتا کبھی سرمہ نہیں

ہے کھڑا ساحل پہ لہروں سے پرے
پار جانے پر وہ آمادہ نہیں

چاہتا ہے تو جو تزئین وفا
پھول لا کانٹوں کا گلدستہ نہیں

اپنے دل میں آپ ہی رہتا ہے وہ
دوسرا کیا اس میں رہ سکتا نہیں

آسماں خاموش ہو اور لوگ چپ
دیر تک یہ سلسلہ چلتا نہیں