EN हिंदी
ثبت ہے چہروں پہ چپ بن میں اندھیرا ہو چکا | شیح شیری
sabt hai chehron pe chup ban mein andhera ho chuka

غزل

ثبت ہے چہروں پہ چپ بن میں اندھیرا ہو چکا

شہزاد احمد

;

ثبت ہے چہروں پہ چپ بن میں اندھیرا ہو چکا
دیکھنے آئے ہو کیا لوگو تماشا ہو چکا

آبرو کے سرخ موتی پھر سے کالے پڑ گئے
جسم کے اندر لہو کا رنگ پیلا ہو چکا

حسرتوں کے پیڑ سب کے سر سے اونچے ہو گئے
آرزو کا زخم پہلے سے بھی گہرا ہو چکا

پھر مجھے نادیدنی زنجیر پہنائی گئی
علم تک مجھ کو نہیں اور میرا سودا ہو چکا

بر سر پیکار اپنے آپ سے ہوں کیا کروں
میرا دشمن بھی مری مٹی سے پیدا ہو چکا

کیسے ٹوٹے ہیں دلوں کے باہمی رشتے نہ پوچھ
ہے نگر آباد اور ہر شخص تنہا ہو چکا

تم کہے جاتے ہو ایسی فصل گل آئی نہیں
اور اگر میں یہ کہوں سو بار ایسا ہو چکا

کون ہوں میں اپنی صورت بھی نہ پہچانی گئی
آئینہ تکتے ہوئے مجھ کو زمانہ ہو چکا

دیکھنا یہ ہے کہ اس کے ماورا کیا چیز ہے
یہ امید و بیم کا دفتر پرانا ہو چکا

کب تلک دل میں جگہ دو گے ہوا کے خوف کو
بادباں کھولو کہ موسم کا اشارہ ہو چکا

اب زباں سے بھی کہو شہزادؔ کیوں خاموش ہو
دل میں جو کچھ تھا وہ آنکھوں سے ہویدا ہو چکا