EN हिंदी
تری تلاش تو کیا تیری آس بھی نہ رہے | شیح شیری
teri talash to kya teri aas bhi na rahe

غزل

تری تلاش تو کیا تیری آس بھی نہ رہے

شہزاد احمد

;

تری تلاش تو کیا تیری آس بھی نہ رہے
عجب نہیں کہ کسی دن یہ پیاس بھی نہ رہے

ہر ایک سمت خلا ہی خلا نظر آئیں
خرابۂ دل ویراں میں یاس بھی نہ رہے

غم فراق کی تلخی وہ دشت ہے کہ جہاں
کوئی قریب تو کیا آس پاس بھی نہ رہے

ترا خیال ہی پر تول کر اڑا لے جائے
کوئی امید شریک حواس بھی نہ رہے

تمام رنگ ہے خوشبو تمام خوشبو رنگ
گلوں سے رنگ اڑا لیں تو باس بھی نہ رہے

لٹا ہے قافلۂ آگہی دوراہے پر
زمانہ ساز تو کیا خود شناس بھی نہ رہے

کسی طریق سے شہزادؔ دل کو سمجھا لیں
نہ مسکرائے مگر یوں اداس بھی نہ رہے