EN हिंदी
منور رانا شیاری | شیح شیری

منور رانا شیر

64 شیر

بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے
رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں

منور رانا




آتے ہیں جیسے جیسے بچھڑنے کے دن قریب
لگتا ہے جیسے ریل سے کٹنے لگا ہوں میں

منور رانا




دہلیز پہ رکھ دی ہیں کسی شخص نے آنکھیں
روشن کبھی اتنا تو دیا ہو نہیں سکتا

منور رانا




دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن
بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا ہے

منور رانا




دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن
بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا

منور رانا




دیکھنا ہے تجھے صحرا تو پریشاں کیوں ہے
کچھ دنوں کے لیے مجھ سے مری آنکھیں لے جا

منور رانا




دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن
ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے

منور رانا




ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا

منور رانا




فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

منور رانا