EN हिंदी
منور رانا شیاری | شیح شیری

منور رانا شیر

64 شیر

دہلیز پہ رکھ دی ہیں کسی شخص نے آنکھیں
روشن کبھی اتنا تو دیا ہو نہیں سکتا

منور رانا




آتے ہیں جیسے جیسے بچھڑنے کے دن قریب
لگتا ہے جیسے ریل سے کٹنے لگا ہوں میں

منور رانا




بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے
رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں

منور رانا




بھلے لگتے ہیں اسکولوں کی یونیفارم میں بچے
کنول کے پھول سے جیسے بھرا تالاب رہتا ہے

منور رانا




برباد کر دیا ہمیں پردیس نے مگر
ماں سب سے کہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے

منور رانا




بچوں کی فیس ان کی کتابیں قلم دوات
میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا

منور رانا




اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں
مہنگائی کے موسم میں یہ تہوار پڑا ہے

منور رانا




ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے

منور رانا




اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو
تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو

منور رانا