EN हिंदी
منور رانا شیاری | شیح شیری

منور رانا شیر

64 شیر

مری ہتھیلی پہ ہونٹوں سے ایسی مہر لگا
کہ عمر بھر کے لیے میں بھی سرخ رو ہو جاؤں

منور رانا




مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی

منور رانا




میں راہ عشق کے ہر پیچ و خم سے واقف ہوں
یہ راستہ مرے گھر سے نکل کے جاتا ہے

منور رانا




میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا

منور رانا




میں اسی مٹی سے اٹھا تھا بگولے کی طرح
اور پھر اک دن اسی مٹی میں مٹی مل گئی

منور رانا




میں دنیا کے معیار پہ پورا نہیں اترا
دنیا مرے معیار پہ پوری نہیں اتری

منور رانا




ماں خواب میں آ کر یہ بتا جاتی ہے ہر روز
بوسیدہ سی اوڑھی ہوئی اس شال میں ہم ہیں

منور رانا




لپٹ جاتا ہوں ماں سے اور موسی مسکراتی ہے
میں اردو میں غزل کہتا ہوں ہندی مسکراتی ہے

منور رانا




کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصے بھی بہت تھے
کچھ اس نے بھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا

منور رانا