عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دل پرخوں کی اک گلابی سے
جی ڈھا جائے ہے سحر سے آہ
رات گزرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
برقعہ اٹھتے ہی چاند سا نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے
کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے
غزل
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
میر تقی میر