بدل لیا ہے ذرا خواب کے علاقے کو
مکاں کو چھوڑ کے اب لا مکاں میں رہتا ہوں
خاور اعجاز
ہاتھ لگاتے ہی مٹی کا ڈھیر ہوئے
کیسے کیسے رنگ بھرے تھے خوابوں میں
خاور اعجاز
اک عرصہ بعد ہوئی کھل کے گفتگو اس سے
اک عرصہ بعد وہ کانٹا چبھا ہوا نکلا
خاور اعجاز
جہاں تم ہو وہاں سے دور پڑتی ہے زمیں میری
جہاں میں ہوں وہاں سے آسماں نزدیک پڑتا ہے
خاور اعجاز
مرے اور اس کے بیچ اک دھند سی موجود رہتی ہے
یہ دنیا آ رہی ہے میرے اس کے درمیاں شاید
خاور اعجاز
مرے صحن پر کھلا آسمان رہے کہ میں
اسے دھوپ چھاؤں میں بانٹنا نہیں چاہتا
خاور اعجاز
مجھے اس خواب نے اک عرصہ تک بے تاب رکھا ہے
اک اونچی چھت ہے اور چھت پر کوئی مہتاب رکھا ہے
خاور اعجاز
سنا رہی ہے جسے جوڑ جوڑ کر دنیا
تمام ٹکڑے ہیں وہ میری داستان کے ہی
خاور اعجاز
افق پر ڈوبنے والا ستارا
کئی امکان روشن کر گیا ہے
خاور اعجاز