درون جاں کا شگوفہ جلا ہوا نکلا
سو جو شرار بھی نکلا بجھا ہوا نکلا
چرا کے لے گئی جانے ہوائے شب کیا کیا
اٹھے تو خواب دریچہ کھلا ہوا نکلا
اک عرصہ بعد ہوئی کھل کے گفتگو اس سے
اک عرصہ بعد وہ کانٹا چبھا ہوا نکلا
دھری ہی رہ گئی خواہش نہال ہونے کی
نمو کا دور تھا اور دل دکھا ہوا نکلا
کھلے پڑے تھے سبھی در مکان ہستی کے
مکین خود کہیں باہر گیا ہوا نکلا
فضائے جاں میں تو اک اضطرار تھا ہی مگر
جہان دل میں بھی دھڑکا لگا ہوا نکلا
اک عمر خواب میں گزری تھی رنگ بھرتے ہوئے
کھلی جب آنکھ تو منظر دھلا ہوا نکلا
غزل
درون جاں کا شگوفہ جلا ہوا نکلا
خاور اعجاز