EN हिंदी
وہ مرے حساب میں انتہا نہیں چاہتا | شیح شیری
wo mere hisab mein intiha nahin chahta

غزل

وہ مرے حساب میں انتہا نہیں چاہتا

خاور اعجاز

;

وہ مرے حساب میں انتہا نہیں چاہتا
مگر ایک میں ہوں کہ ابتدا نہیں چاہتا

مرے صحن پر کھلا آسمان رہے کہ میں
اسے دھوپ چھاؤں میں بانٹنا نہیں چاہتا

کبھی کھل سکے کسی اعتبار کے دور میں
مجھے چاہتا ہے وہ دل سے یا نہیں چاہتا

کوئی اور بھی ہو چراغ بزم حیات کا
سر طاق رکھا ہوا دیا نہیں چاہتا

یہ مرے وجود کا مسئلہ بھی عجیب ہے
جو میں چاہتا ہوں وہ دوسرا نہیں چاہتا