نیا پیمان روشن کر گیا ہے
وہ آتش دان روشن کر گیا ہے
کوئی طاق نظر میں شمع رکھ کر
دل ویران روشن کر گیا ہے
افق پر ڈوبنے والا ستارا
کئی امکان روشن کر گیا ہے
مرے کمرے کا اک تاریک گوشہ
کوئی مہمان روشن کر گیا ہے
مرے دشمن کا ہے احسان مجھ پر
مری پہچان روشن کر گیا ہے
بہت مدھم سی تھی آفاق کی لو
مگر انسان روشن کر گیا ہے
غزل
نیا پیمان روشن کر گیا ہے
خاور اعجاز