زمیں کے ہاتھ میں ہوں اور نہ آسمان کے ہی
پڑا ہوا ہوں میں ایسی جگہ پہ جان کے ہی
نہ ہم سے کہتے ہیں کچھ اور نہ ہم سے سنتے ہیں
یہ آدمی ہیں کسی دوسرے جہان کے ہی
ترے جہان کے جھگڑوں میں ہاتھ کیوں ڈالوں
مجھے بہت ہیں بکھیڑے مرے مکان کے ہی
سنا رہی ہے جسے جوڑ جوڑ کر دنیا
تمام ٹکڑے ہیں وہ میری داستان کے ہی
ترے فلک پہ ہے کیا اور بھی کوئی روشن
چمک رہے ہیں ستارے تو خاکدان کے ہی
ہمیں جو مان رہے ہیں زباں سے بھی اپنی
اس انتہا پہ وہ آئے ہیں دل سے مان کے ہی
کسی سے کوئی نہیں باز پرس دنیا میں
زمانہ پیچھے پڑا ہے ہماری جان کے ہی
تو کیا تجھے بھی کوئی اور کام باقی نہیں
جو ہم پہ رہنے لگے دن یہ امتحان کے ہی
مگر یہ قتل کی سازش کہاں سے آ نکلی
وہ خط وہ لوگ تو تھے میرے خاندان کے ہی
سو بند کرنا پڑا مجھ کو کاروبار حیات
وہ آ کے بیٹھ گیا سامنے دکان کے ہی
غزل
زمیں کے ہاتھ میں ہوں اور نہ آسمان کے ہی
خاور اعجاز