کبھی میں چپ کبھی حرف بیاں میں رہتا ہوں
میں اپنے شہر کی ہر اک زباں میں رہتا ہوں
بدل لیا ہے ذرا خواب کے علاقے کو
مکاں کو چھوڑ کے اب لا مکاں میں رہتا ہوں
میں ایک حرف تسلی ہوں نرم دل کے لیے
ہمیشہ سے نگہہ مہرباں میں رہتا ہوں
مجھے زمین پہ ہر سمت در بدر کر کے
بتا رہا ہے کہ میں آسماں میں رہتا ہوں
چلو یہ مان لیا اک مہک ہوں ماضی کی
مگر یہ ہے کہ میں عصر رواں میں رہتا ہوں
نئی کہانی مجھے کیوں گوارا کرنے لگی
پرانا حرف ہوں اور داستاں میں رہتا ہوں
سبک خیال نہیں ہوں کہ تیرے ہاتھ آؤں
بہت پرے کہیں خواب گراں میں رہتا ہوں
غزل
کبھی میں چپ کبھی حرف بیاں میں رہتا ہوں
خاور اعجاز