کہیں رکنے لگی ہے کشتئ عمر رواں شاید
زمیں چھونے لگی ہے اب کے حد آسماں شاید
مجھے اس نے طلب فرمایا ہے میدان ہستی سے
اسے پھر یاد آیا ہے کوئی کار جہاں شاید
ابھرتی آ رہی ہے ایک دنیا اور ہی کوئی
مکاں کے ساتھ ملتا جا رہا ہے لا مکاں شاید
بدل دیکھوں چراغ شوق سے میں بھی چراغ اپنا
مرے گھر سے نکل جائے اسی صورت دھواں شاید
کرن ٹھہری نہیں ہے خواب کے پردے میں بھی آکر
کھلی ہی رہ گئی تھیں خواب میں بھی کھڑکیاں شاید
چلو میں بھی کوئی سودا کروں اس بار ہستی کا
کھلی ہو بام ہست و بود پر اس کی دکاں شاید
مرے اور اس کے بیچ اک دھند سی موجود رہتی ہے
یہ دنیا آ رہی ہے میرے اس کے درمیاں شاید
غزل
کہیں رکنے لگی ہے کشتئ عمر رواں شاید
خاور اعجاز