مجھے اس خواب نے اک عرصہ تک بے تاب رکھا ہے
اک اونچی چھت ہے اور چھت پر کوئی مہتاب رکھا ہے
کسی کے واسطے تازہ کناروں کو ابھارا اور
مجھے صدیوں پرانے شوق میں غرقاب رکھا ہے
جزیرے اور ساحل سب زمانے کے لیے رکھے
مرا سارا علاقہ اس نے زیر آب رکھا ہے
ستون شوق پر اک روشنی سی پڑ رہی ہے جو
چراغ آرزو کوئی تہہ محراب رکھا ہے
کسی کو تو جہاں بھر میں فراواں کر دیا اس نے
مجھے کچھ سوچ کر اس دہر میں نایاب رکھا ہے
غزل
مجھے اس خواب نے اک عرصہ تک بے تاب رکھا ہے
خاور اعجاز