EN हिंदी
کلیم عاجز شیاری | شیح شیری

کلیم عاجز شیر

66 شیر

حقیقتوں کا جلال دیں گے صداقتوں کا جمال دیں گے
تجھے بھی ہم اے غم زمانہ غزل کے سانچے میں ڈھال دیں گے

کلیم عاجز




ادھر آ ہم دکھاتے ہیں غزل کا آئنہ تجھ کو
یہ کس نے کہہ دیا گیسو ترے برہم نہیں پیارے

کلیم عاجز




اک گھر بھی سلامت نہیں اب شہر وفا میں
تو آگ لگانے کو کدھر جائے ہے پیارے

کلیم عاجز




عشق میں موت کا نام ہے زندگی
جس کو جینا ہو مرنا گوارا کرے

کلیم عاجز




کبھی ایسا بھی ہووے ہے روتے روتے
جگر تھام کر مسکرانا پڑے ہے

کلیم عاجز




کل کہتے رہے ہیں وہی کل کہتے رہیں گے
ہر دور میں ہم ان پہ غزل کہتے رہیں گے

کلیم عاجز




کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے
لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے

کلیم عاجز




خموشی میں ہر بات بن جائے ہے
جو بولے ہے دیوانہ کہلائے ہے

کلیم عاجز




کچھ روز سے ہم شہر میں رسوا نہ ہوئے ہیں
آ پھر کوئی الزام لگانے کے لئے آ

کلیم عاجز