EN हिंदी
کلیم عاجز شیاری | شیح شیری

کلیم عاجز شیر

66 شیر

یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیمؔ اس کو اور سجائے جا
وہ دکھائیں رقص ستم گری تو غزل کا ساز بجائے جا

کلیم عاجز




یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا

کلیم عاجز




یہ وعظ وفاداری عاجزؔ نہ بدل دینا
وہ زخم تجھے دیں گے تم ان کو غزل دینا

کلیم عاجز




ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی

کلیم عاجز




ذرا دیکھ آئنہ میری وفا کا
کہ تو کیسا تھا اب کیسا لگے ہے

کلیم عاجز




زندگی مائل فریاد و فغاں آج بھی ہے
کل بھی تھا سینے پہ اک سنگ گراں آج بھی ہے

کلیم عاجز




بہت دشوار سمجھانا ہے غم کا
سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے

کلیم عاجز




غم ہے تو کوئی لطف نہیں بستر گل پر
جی خوش ہے تو کانٹوں پہ بھی آرام بہت ہے

کلیم عاجز




فن میں نہ معجزہ نہ کرامات چاہئے
دل کو لگے بس ایسی کوئی بات چاہئے

کلیم عاجز