عاجزؔ کی ہیں الٹی باتیں کون اسے سمجھائے
دھوپ کو پاگل کہے اندھیرا دن کو رات بتائے
کلیم عاجز
آزمانا ہے تو آ بازو و دل کی قوت
تو بھی شمشیر اٹھا ہم بھی غزل کہتے ہیں
کلیم عاجز
اب انسانوں کی بستی کا یہ عالم ہے کہ مت پوچھو
لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہے
کلیم عاجز
اپنا دل سینۂ اشعار میں رکھ دیتے ہیں
کچھ حقیقت بھی ضروری ہے فسانے کے لئے
کلیم عاجز
اپنا لہو بھر کر لوگوں کو بانٹ گئے پیمانے لوگ
دنیا بھر کو یاد رہیں گے ہم جیسے دیوانے لوگ
کلیم عاجز
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیمؔ
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے
کلیم عاجز
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیمؔ
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے
کلیم عاجز
بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں
محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے
کلیم عاجز
بہت دشوار سمجھانا ہے غم کا
سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے
کلیم عاجز