بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیمؔ
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے
کلیم عاجز
اپنا لہو بھر کر لوگوں کو بانٹ گئے پیمانے لوگ
دنیا بھر کو یاد رہیں گے ہم جیسے دیوانے لوگ
کلیم عاجز
اپنا دل سینۂ اشعار میں رکھ دیتے ہیں
کچھ حقیقت بھی ضروری ہے فسانے کے لئے
کلیم عاجز
اب انسانوں کی بستی کا یہ عالم ہے کہ مت پوچھو
لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہے
کلیم عاجز
آزمانا ہے تو آ بازو و دل کی قوت
تو بھی شمشیر اٹھا ہم بھی غزل کہتے ہیں
کلیم عاجز
عاجزؔ کی ہیں الٹی باتیں کون اسے سمجھائے
دھوپ کو پاگل کہے اندھیرا دن کو رات بتائے
کلیم عاجز
ہاں کچھ بھی تو دیرینہ محبت کا بھرم رکھ
دل سے نہ آ دنیا کو دکھانے کے لئے آ
کلیم عاجز
ہم بھی کچھ اپنے دل کی گرہ کھولنے کو ہیں
کس کس کا آج دیکھیے بند قبا کھلے
کلیم عاجز
ہمارے قتل سے قاتل کو تجربہ یہ ہوا
لہو لہو بھی ہے مہندی بھی ہے شراب بھی ہے
کلیم عاجز