حقیقتوں کا جلال دیں گے صداقتوں کا جمال دیں گے
تجھے بھی ہم اے غم زمانہ غزل کے سانچے میں ڈھال دیں گے
تپش پتنگوں کو بخش دیں گے لہو چراغوں میں ڈھال دیں گے
ہم ان کی محفل میں رہ گئے ہیں تو ان کی محفل سنبھال دیں گے
نہ بندۂ عقل و ہوش دیں گے نہ اہل فکر و خیال دیں گے
تمہاری زلفوں کو جو درازی تمہارے آشفتہ حال دیں گے
یہ عقل والے اسی طرح سے ہمیں فریب کمال دیں گے
جنوں کے دامن سے پھول چن کر خرد کے دامن میں ڈال دیں گے
ہماری آشفتگی سلامت سلجھ ہی جائے گی زلف دوراں
جو پیچ و خم رہ گیا ہے باقی وہ پیچ و خم بھی نکال دیں گے
جناب شیخ اپنی فکر کیجے کہ اب یہ فرمان برہمن ہے
بتوں کو سجدہ نہیں کرو گے تو بت کدے سے نکال دیں گے
غزل
حقیقتوں کا جلال دیں گے صداقتوں کا جمال دیں گے
کلیم عاجز