EN हिंदी
کلیم عاجز شیاری | شیح شیری

کلیم عاجز شیر

66 شیر

دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو

کلیم عاجز




دل تھام کے کروٹ پہ لئے جاؤں ہوں کروٹ
وہ آگ لگی ہے کہ بجھائے نہ بنے ہے

کلیم عاجز




دل درد کی بھٹی میں کئی بار جلے ہے
تب ایک غزل حسن کے سانچے میں ڈھلے ہے

کلیم عاجز




درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے

کلیم عاجز




دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

کلیم عاجز




بھلا آدمی تھا پہ نادان نکلا
سنا ہے کسی سے محبت کرے ہے

کلیم عاجز




گزر جائیں گے جب دن گزرے عالم یاد آئیں گے
ہمیں تم یاد آؤ گے تمہیں ہم یاد آئیں گے

کلیم عاجز




بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں
محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے

کلیم عاجز




بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیمؔ
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے

کلیم عاجز