کس طرح کوئی دھوپ میں پگھلے ہے جلے ہے
یہ بات وہ کیا جانے جو سائے میں پلے ہے
دل درد کی بھٹی میں کئی بار جلے ہے
تب ایک غزل حسن کے سانچے میں ڈھلے ہے
کیا دل ہے کہ اک سانس بھی آرام نہ لے ہے
محفل سے جو نکلے ہے تو خلوت میں جلے ہے
بھولی ہوئی یاد آ کے کلیجے کو ملے ہے
جب شام گزر جائے ہے جب رات ڈھلے ہے
ہاں دیکھ ذرا کیا ترے قدموں کے تلے ہے
ٹھوکر بھی وہ کھائے ہے جو اترا کے چلے ہے
غزل
کس طرح کوئی دھوپ میں پگھلے ہے جلے ہے
کلیم عاجز