میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سر بام
پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمہیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھلا دیں تمہیں کیا بات کرو ہو
یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بکنے بھی دو عاجزؔ کو جو بولے ہے بکے ہے
دیوانہ ہے دیوانے سے کیا بات کرو ہو
غزل
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
کلیم عاجز