EN हिंदी
جون ایلیا شیاری | شیح شیری

جون ایلیا شیر

159 شیر

اے صبح میں اب کہاں رہا ہوں
خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں

جون ایلیا




اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو
کچھ نہیں آسمان میں رکھا

جون ایلیا




اپنے اندر ہنستا ہوں میں اور بہت شرماتا ہوں
خون بھی تھوکا سچ مچ تھوکا اور یہ سب چالاکی تھی

جون ایلیا




اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں

جون ایلیا




اپنے سبھی گلے بجا پر ہے یہی کہ دل ربا
میرا ترا معاملہ عشق کے بس کا تھا نہیں

جون ایلیا




اپنے سر اک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے

جون ایلیا




اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم
اپنا گھر بھول گئے ان کی گلی بھول گئے

جون ایلیا




اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

جون ایلیا




بہت کترا رہے ہو مغبچوں سے
گناہ ترک بادہ کر لیا کیا

جون ایلیا