اب نہیں ملیں گے ہم کوچۂ تمنا میں
کوچۂ تمنا میں اب نہیں ملیں گے ہم
جون ایلیا
آئینوں کو زنگ لگا
اب میں کیسا لگتا ہوں
جون ایلیا
اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی
جون ایلیا
اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی
رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر
جون ایلیا
اے شخص میں تیری جستجو سے
بے زار نہیں ہوں تھک گیا ہوں
جون ایلیا
اے صبح میں اب کہاں رہا ہوں
خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں
جون ایلیا
اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو
کچھ نہیں آسمان میں رکھا
جون ایلیا
اپنے اندر ہنستا ہوں میں اور بہت شرماتا ہوں
خون بھی تھوکا سچ مچ تھوکا اور یہ سب چالاکی تھی
جون ایلیا
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
جون ایلیا