منظر سے ہیں نہ دیدۂ بینا کے دم سے ہیں
سب معجزے طلسم تماشا کے دم سے ہیں
مٹی تو سامنے کا حوالہ ہے اور بس
کوزے میں جتنے رنگ ہیں دریا کے دم سے ہیں
کیا ایسی منزلوں کے لیے نقد جاں گنوائیں
جو خود ہمارے نقش کف پا کے دم سے ہیں
یہ ساری جنتیں یہ جہنم عذاب و اجر
ساری قیامتیں اسی دنیا کے دم سے ہیں
ہم سارے یادگار زمین و زمانہ لوگ
اک صاحب زمین و زمانہ کے دم سے ہیں
غزل
منظر سے ہیں نہ دیدۂ بینا کے دم سے ہیں
افتخار عارف