مجھے بلا کے یہاں آپ چھپ گیا کوئی
وہ میہماں ہوں جسے میزباں نہیں ملتا
فانی بدایونی
مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے
عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے
فانی بدایونی
میری ہوس کو عیش دو عالم بھی تھا قبول
تیرا کرم کہ تو نے دیا دل دکھا ہوا
فانی بدایونی
میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ
رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے
فانی بدایونی
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا نہ رہا
فانی بدایونی
موت آنے تک نہ آئے اب جو آئے ہو تو ہائے
زندگی مشکل ہی تھی مرنا بھی مشکل ہو گیا
فانی بدایونی
موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانیؔ
گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے
فانی بدایونی
مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات
مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے
فانی بدایونی
میں نے فانیؔ ڈوبتی دیکھی ہے نبض کائنات
جب مزاج یار کچھ برہم نظر آیا مجھے
فانی بدایونی