EN हिंदी
فانی بدایونی شیاری | شیح شیری

فانی بدایونی شیر

83 شیر

ایک عالم کو دیکھتا ہوں میں
یہ ترا دھیان ہے مجسم کیا

فانی بدایونی




دنیائے حسن و عشق میں کس کا ظہور تھا
ہر آنکھ برق پاش تھی ہر ذرہ طور تھا

فانی بدایونی




دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے

فانی بدایونی




دل مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا نہ رہا

فانی بدایونی




دل آباد کا فانیؔ کوئی مفہوم نہیں
ہاں مگر جس میں کوئی حسرت برباد رہے

فانی بدایونی




دل سراپا درد تھا وہ ابتدائے عشق تھی
انتہا یہ ہے کہ فانیؔ درد اب دل ہو گیا

فانی بدایونی




دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے

فانی بدایونی




درد دل کی انہیں خبر کیا ہو
جانتا کون ہے پرائی چوٹ

فانی بدایونی




ہرمصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب
اس طرح گردش دوراں کو رلایا میں نے

فانی بدایونی