بیمار ترے جی سے گزر جائیں تو اچھا
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں یہ مر جائیں تو اچھا
فانی بدایونی
بھر کے ساقی جام مے اک اور لا اور جلد لا
ان نشیلی انکھڑیوں میں پھر حجاب آنے کو ہے
فانی بدایونی
بہلا نہ دل نہ تیرگیٔ شام غم گئی
یہ جانتا تو آگ لگاتا نہ گھر کو میں
فانی بدایونی
اپنی جنت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ
کوچۂ یار میں چل دیکھ لے جنت میری
فانی بدایونی
اپنی ہی نگاہوں کا یہ نظارہ کہاں تک
اس مرحلۂ سعیٔ تماشا سے گزر جا
فانی بدایونی
اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے
مجھ کو خیال یار کہیں ڈھونڈتا نہ ہو
فانی بدایونی
اب نئے سر سے چھیڑ پردۂ ساز
میں ہی تھا ایک دکھ بھری آواز
فانی بدایونی
آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت
احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا
فانی بدایونی
آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے
فانی بدایونی