EN हिंदी
فانی بدایونی شیاری | شیح شیری

فانی بدایونی شیر

83 شیر

جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ
مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے

فانی بدایونی




کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر
کچھ امید جواب میں گزری

فانی بدایونی




کسی کو کیا مرے سود و زیاں سے
گرے کیوں برق بچ کر آشیاں سے

فانی بدایونی




کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا

فانی بدایونی




کس خرابی سے زندگی فانیؔ
اس جہان خراب میں گزری

فانی بدایونی




کشتئ اعتبار توڑ کے دیکھ
کہ خدا بھی ہے نا خدا ہی نہیں

فانی بدایونی




کرم بے حساب چاہا تھا
ستم بے حساب میں گزری

فانی بدایونی




کفن اے گرد لحد دیکھ نہ میلا ہو جائے
آج ہی ہم نے یہ کپڑے ہیں نہا کے بدلے

فانی بدایونی




جسم آزادی میں پھونکی تو نے مجبوری کی روح
خیر جو چاہا کیا اب یہ بتا ہم کیا کریں

فانی بدایونی