جینے بھی نہیں دیتے مرنے بھی نہیں دیتے
کیا تم نے محبت کی ہر رسم اٹھا ڈالی
فانی بدایونی
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ
فانی بدایونی
جور کو جور بھی اب کیا کہیے
خود وہ تڑپا کے تڑپ جاتے ہیں
فانی بدایونی
جلوہ و دل میں فرق نہیں جلوے کو ہی اب دل کہتے ہیں
یعنی عشق کی ہستی کا آغاز تو ہے انجام نہیں
فانی بدایونی
اس درد کا علاج اجل کے سوا بھی ہے
کیوں چارہ ساز تجھ کو امید شفا بھی ہے
فانی بدایونی
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
فانی بدایونی
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
صبر رخصت ہو رہا ہے اضطراب آنے کو ہے
فانی بدایونی
ہوتے ہیں راز عشق و محبت اسی سے فاش
آنکھیں زباں نہیں ہے اگر بے زباں نہیں
فانی بدایونی
ہجر میں مسکرائے جا دل میں اسے تلاش کر
ناز ستم اٹھائے جا راز ستم نہ فاش کر
فانی بدایونی